وہ لے کے دل کو یہ سوچی کہیں جگر بھی ہے
نظر ٹٹول رہی ہے کہ کچھ ادھر بھی ہے
ہنسو نہ کھول کے زلفیں بلا نصیبوں پر
بلا نصیب جہاں میں تمہارا سر بھی ہے
وہ بگڑے سن کے مگر سن تو لی ہماری آہ
یہ بے اثر ہی نہیں بلکہ با اثر بھی ہے
جنون کو وہ بناوٹ سمجھ رہا ہے ابھی
یہ سن لیا ہے کسی سے کہ میرے گھر بھی ہے
فراق میں یہ نیا تجربہ ہوا مجھ کو
کہ ایک رات زمانے میں بے سحر بھی ہے
یہ کہہ کے حشر سے بھاگا میں اپنا جی لے کر
الٰہی خیر یہاں تو وہ فتنہ گر بھی ہے
مجھے تو آپ میں اس وقت تم نہیں ملتے
کہاں ہو شوقؔ کچھ اپنی تمہیں خبر بھی ہے

غزل
وہ لے کے دل کو یہ سوچی کہیں جگر بھی ہے
شوق قدوائی