وہ لمحے بھولے نہیں رسم و راہ کے اب تک
تصورات ہیں دل میں گناہ کے اب تک
بہا کے لے گیا سیلاب گاؤں کے منظر
گھروندے مٹ نہیں پائے ہیں چاہ کے اب تک
تری زباں سے جو نکلے تھے بد دعا بن کر
مجھے جلاتے ہیں شعلے وہ آہ کے اب تک
کسی زمانے میں شاید یہاں پہ مقتل تھا
نشاں بتاتے ہیں یہ قصر شاہ کے اب تک
وہ خواب دیکھے زمانہ گزر گیا لیکن
سلگ رہے ہیں دریچے نگاہ کے اب تک
جہاں پہ سائے لرزتے ہیں تیری یادوں کے
بلا رہے ہیں وہی موڑ راہ کے اب تک
کہی تھی دار پہ کل حق کی بات احسنؔ نے
صلیب ہاتھ میں ہے سربراہ کے اب تک
غزل
وہ لمحے بھولے نہیں رسم و راہ کے اب تک
نواب احسن