EN हिंदी
وہ کیا کچھ نہ کرنے والے تھے | شیح شیری
wo kya kuchh na karne wale the

غزل

وہ کیا کچھ نہ کرنے والے تھے

جون ایلیا

;

وہ کیا کچھ نہ کرنے والے تھے
بس کوئی دم میں مرنے والے تھے

تھے گلے اور گرد باد کی شام
اور ہم سب بکھرنے والے تھے

وہ جو آتا تو اس کی خوشبو میں
آج ہم رنگ بھرنے والے تھے

صرف افسوس ہے یہ طنز نہیں
تم نہ سنورے سنورنے والے تھے

یوں تو مرنا ہے ایک بار مگر
ہم کئی بار مرنے والے تھے