وو کوئی سچ تھا یا جھوٹا کوئی فسانہ تھا
ہمیں ملا کیوں نہیں جس کو ہم نے چاہا تھا
میں کیا کہوں کہ وہ قاتل تھا یا مسیحا تھا
مگر اداؤں سے لگتا بڑا ہی پیارا تھا
حسین آس کو ان قربتوں نے توڑ دیا
سراب نکلا جسے دریا ہم نے سمجھا تھا
مہک رہا ہے ابھی تک حنائی ہاتھوں سا
ہتھیلی پہ جو مرا نام تم نے لکھا تھا
ملے تھے دوست کئی راہ میں حسین مگر
کسی کو ساتھ مرے دور تک نہ چلنا تھا
غزل
وو کوئی سچ تھا یا جھوٹا کوئی فسانہ تھا
تاثیر صدیقی