وہ کس پیار سے کوسنے دے رہے ہیں
بلائیں عداوت کی ہم لے رہے ہیں
پڑے ہیں وہ عشرت کدے آج ویراں
جہاں یار لوگوں کے جلسے رہے ہیں
برے اور اچھوں کے ہیں ذکر باقی
برے ہی رہے ہیں نہ اچھے رہے ہیں
پیامی سے کہتے ہیں کس نے کہا تھا
وہ کیوں رات بھر یوں تڑپتے رہے ہیں
زباں تھک گئی کوسنے دیتے دیتے
بس اب خیر سے چٹکیاں لے رہے ہیں
نئے داغ کھائے ہیں کیا آج دل پر
یہ گل تو ہمیشہ ہی کھلتے رہے ہیں
جہاں مل کے بیٹھے ہیں دو چار ہم سن
ہمارے تمہارے ہی چرچے رہے ہیں
ظہیرؔ آہ دن زندگانی کے اپنے
بہت جا چکے اور تھوڑے رہے ہیں
غزل
وہ کس پیار سے کوسنے دے رہے ہیں
ظہیرؔ دہلوی