وہ خوف جاں تھا کہ لب کھولنا گوارا نہ تھا
صدائیں سہمی کچھ ایسی سخن کا یارا نہ تھا
تمام اپنے پرائے کٹے کٹے سے رہے
چھری جو چمکی تو اس نے کسے پکارا نہ تھا
رخ کماں تھا ادھر تیر کا نشانہ ادھر
ہمارا دوست تو تھا اور مگر ہمارا نہ تھا
رفو طلب نظر آتا ہے دیکھیے جس کو
لباس جاں تو کبھی اتنا پارہ پارہ نہ تھا
خدا کرے کہ رہے مہرباں سدا تم پر
عزیزو وقت کہ اک لمحہ بھی ہمارا نہ تھا
اڑانیں بھرتے پرندوں کے پر کتر ڈالیں
نظر کے سامنے ایسا کبھی نظارہ نہ تھا
ہے دور حد نظر سے تو کیا قیامت ہے
ہمارے پاس تھا جب تک وہ اتنا پیارا نہ تھا
غزل
وہ خوف جاں تھا کہ لب کھولنا گوارا نہ تھا
نصر غزالی