وہ خانماں خراب نہ کیوں در بدر پھرے
جس سے تری نگاہ ملے یا نظر پھرے
راہ جنوں میں یوں تو ہیں لاکھوں ہی سرپھرے
یارب مری طرح نہ کوئی عمر بھر پھرے
رفتار یار کا اگر انداز بھول جائے
گلشن میں خاک اڑاتی نسیم سحر پھرے
ساقی کو بھی سکھاتے ہیں آداب میکشی
ملتے ہیں مے کدہ میں کچھ ایسے بھی سرپھرے
ترک وطن کے بعد ہی قدر وطن ہوئی
برسوں مری نگاہ میں دیوار و در پھرے
رہ جائے چند روز جو بیمار غم کے پاس
خود اپنا دل دبائے ہوئے چارہ گر پھرے
میں اپنا رقص جام تجھے بھی دکھاؤں گا
اے گردش زمانہ مرے دن اگر پھرے
میری نگاہ میں تو غزل ہے اسی کا نام
جس کی رگوں میں دوڑتا خون جگر پھرے
قید غم حیات بھی کیا چیز ہے فناؔ
راہ فرار مل نہ سکی عمر بھر پھرے
غزل
وہ خانماں خراب نہ کیوں در بدر پھرے
فنا نظامی کانپوری