وہ کون ہے جس کی وحشت پر سنتے ہیں کہ جنگل روتا ہے
ویرانے میں اکثر رات گئے اک شخص ہے پاگل روتا ہے
پھر سن سے کہیں پروائی چلی کھلتے نہیں دیکھی دل کی کلی
یہ جھوٹ ہے برکھا ہوتی ہے یہ سچ ہے کہ بادل روتا ہے
ہے اس کا سراپا دیدۂ تر دنیا کو مگر کیا اس کی خبر
سب کے لیے آنکھیں ہنستی ہیں میرے لیے کاجل روتا ہے
وہ کس کے لیے سنگھار کرے چندن سا بدن یوں روپ بھرے
جب مانگ جھکا جھک ہوتی ہے آئینہ جھلا جھل روتا ہے
بنتی نہیں دل سے شاذؔ اپنی یہ دوست ہے یا دشمن کوئی
ہم ہیں کہ مسلسل ہنستے ہیں وہ ہے کہ مسلسل روتا ہے

غزل
وہ کون ہے جس کی وحشت پر سنتے ہیں کہ جنگل روتا ہے
شاذ تمکنت