وہ کون دیر نشیں تھا حرم کے گوشے میں
کس کی یاد تھی یاد خدا کے پردے میں
کہیں تو کس سے کہیں چپ سی لگ گئی ہے ہمیں
بڑا سکوں ہے تری بے رخی کے صدقے میں
دکھا دکھا کے جھلک کوئی چھپتا جاتا تھا
کہاں کہاں نہ صدا دی کسی کے دھوکے میں
خبر نہیں کہ تری یاد کیا ترا غم کیا
مگر وہ درد جو ہوتا ہے سانس لینے میں
ترے فراق کی یہ دین بھی قیامت ہے
کہاں کی آگ سمو دی ہے میرے نغمے میں
چلی تھی کشتئ دل بادبان یاد کے ساتھ
کہاں اتار گئی اجنبی جزیرے میں
وہ آدھی رات وہ سنسان راستہ وہ مکاں
وہ اک شمع سی جلتی ہوئی دریچے میں
نشیب وادئ غم میں اتر گیا ہے کوئی
کھڑا ہوا ہے کوئی آج تک جھروکے میں
حیات کیا ہے اجل کو بھی ہار بیٹھے شاذؔ
کہیں کے بھی نہ رہے نقد دل کے سودے میں

غزل
وہ کون دیر نشیں تھا حرم کے گوشے میں
شاذ تمکنت