وہ کم سخن نہ تھا پر بات سوچ کر کرتا
یہی سلیقہ اسے سب میں معتبر کرتا
نہ جانے کتنی غلط فہمیاں جنم لیتیں
میں اصل بات سے پہلو تہی اگر کرتا
میں سوچتا ہوں کہاں بات اس قدر بڑھتی
اگر میں تیرے رویے سے در گزر کرتا
مرا عدو تو تھا علم الکلام کا ماہر
مرے خلاف زمانے کو بول کر کرتا
اکیلے جنگ لڑی جیت لی تو سب نے کہا
پہنچتے ہم بھی اگر تو ہمیں خبر کرتا
مری بھی چھاؤں نہ ہوتی اگر تمہاری طرح
میں انحصار بزرگوں کے سائے پر کرتا
سفر میں ہوتی ہے پہچان کون کیسا ہے
یہ آرزو تھی مرے ساتھ تو سفر کرتا
گئے دنوں میں یہ معمول تھا مرا تیمورؔ
زیادہ وقت میں اک خواب میں بسر کرتا
غزل
وہ کم سخن نہ تھا پر بات سوچ کر کرتا
تیمور حسن