وہ کہاں مجھ پہ جفا کرتا تھا
جو مقدر تھا ملا کرتا تھا
آج شرماتا ہے سورج اس سے
وہ جو تاروں سے حیا کرتا تھا
سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے
سامنے اس کے میں کیا کرتا تھا
میں پڑا رہتا تھا افتادگی سے
جادۂ شوق چلا کرتا تھا
یاد آیا ہے کہ خوش باشی کو
غم کا افشردہ پیا کرتا تھا
گرد رہ بن کے جو یوں بیٹھا ہوں
صورت شعلہ اٹھا کرتا تھا
دل سے اک ہوک بھی اب اٹھتی نہیں
دل کہ ہنگامہ بپا کرتا تھا
منزلوں تک ہے کڑی دھوپ کھڑی
میں بھی سائے میں چلا کرتا تھا
اب وہ مرنے کی اڑاتے ہیں خبر
جن پہ مرنے کو جیا کرتا تھا
وہ بھی ملتے تھے کبھی مجھ سے نظرؔ
کبھی ایسا بھی ہوا کرتا تھا

غزل
وہ کہاں مجھ پہ جفا کرتا تھا
قیوم نظر