EN हिंदी
وہ کہہ تو گئے ہیں کہ ہم آویں گے سحر تک | شیح شیری
wo kah to gae hain ki hum aawenge sahar tak

غزل

وہ کہہ تو گئے ہیں کہ ہم آویں گے سحر تک

تنویر دہلوی

;

وہ کہہ تو گئے ہیں کہ ہم آویں گے سحر تک
امید ہے جینے کی کسے چار پہر تک

ظلمات و عدم میں نہ رہا فرق سر مو
وہ زلف دوتا چھٹتے ہی پہونچے ہے کمر تک

ہے روزن در دیدۂ خورشید قیامت
وہ جھانکنے آئے تھے کہن روزن در تک

کچھ کہہ دیں اشاروں ہی سے وہ منہ سے نہ بولیں
وہ مانگیں تو ہم جان تلک دیں انہیں سر تک

تنویرؔ سخن فہم سمجھتے ہیں سخن کو
کچھ قدر ہنر کی ہے تو ہے اہل ہنر تک