وہ کاش وقت کے پہرے کو توڑ کر آتے
جو محو خواب ہیں ان کو جھنجھوڑ کر آتے
نہ اٹھتی کوئی نگاہ غلط سر محفل
وہ اپنے جلوے کو گھر اپنے چھوڑ کر آتے
اداس آنکھوں کو دیکھا تو یہ خیال آیا
چمن کے پھولوں سے شبنم نچوڑ کر آتے
عصائے موسیٰ کبھی ہاتھ لگ گیا ہوتا
فرعون وقت کا سر ہم بھی پھوڑ کر آتے
اگر تھی چہرے پہ رونق کی آرزو ان کو
مصیبتوں کی کلائی مروڑ کر آتے
ادھر نہ نکلیں گے وہ نظر بد کا خدشہ ہے
خبر یہ ہوتی تو ہم آنکھیں پھوڑ کر آتے
سنا کہ آج بھی دانشوروں میں خوب مچی
اثرؔ بھی آتے تو ہمت بٹور کر آتے

غزل
وہ کاش وقت کے پہرے کو توڑ کر آتے
مرغوب اثر فاطمی