وہ جو پھول تھے تری یاد کے تہہ دست خار چلے گئے
ترے شہر میں بھی سکون ہے ترے بے قرار چلے گئے
نہ وہ اشک اب نہ وہ آبلے نہ وہ چیختی ہوئی دھڑکنیں
مری ذات سے ترے درد کے سبھی اشتہار چلے گئے
نہ وہ یاد ہے نہ وہ ہجر ہے نہ نگاہ ناز کا ذکر ہے
مرے ذہن سے تری فکر کے سبھی روزگار چلے گئے
تھے وہ فطرتاً ہی شہید خو انہیں قاتلوں سے بھی پیار تھا
کبھی مقتلوں میں کٹے تھے وہ کبھی سوئے دار چلے گئے
نہ بدن بچا نہ لہو بچا نہ تو جسم کا کوئی مو بچا
کوئی جا کے کہہ دے یہ درد سے وہ ترے شکار چلے گئے
یوں عبث کسی کو سدا نہ دو دل زار کو یہ بتا بھی دو
کبھی اب نہ آئیں گے لوٹ کر وہ جو ایک بار چلے گئے
انہیں کیا للک ترے فیض کی انہیں کیا طلب ترے وصل کی
جو مزاج لے کے فقیر کا سر کوئے یار چلے گئے
ہے یہ سچ کہ موسم ہجر میں مرا خار خار بدن ہوا
کبھی یاد تجھ کو جو کر لیا تو بدن کے خار چلے گئے
نہ خوشی میں اب وہ سرور ہے نہ تو درد میں وہ نشہ رہا
لو سحابؔ بادۂ عشق کے وہ سبھی خمار چلے گئے
غزل
وہ جو پھول تھے تری یاد کے تہہ دست خار چلے گئے
اجے سحاب