وہ جو مبتلا ہے محبتوں کے عذاب میں
کوئی پھوٹتا ہوا آبلہ ہے حباب میں
مرا عشق شرط وصال سے رہے متصل
نہیں دیکھنا مجھے خواب شب شب خواب میں
جو کشید کرنے کا حوصلہ ہے تو کیجئے
کہ ہزار طرح کی راحتیں ہیں عذاب میں
یہ طواف کعبہ یہ بوسہ سنگ سیاہ کا
یہ تلاش اب بھی ہے پتھروں کے حجاب میں
بڑی لذتیں ہیں گناہ میں جو نہ کیجئے
جو نہ پیجئے تو عجب نشہ ہے شراب میں
سبھی عذر ہائے گناہ جب ہوئے مسترد
تو دلیل کیسی دفاع کار ثواب میں
غزل
وہ جو مبتلا ہے محبتوں کے عذاب میں
سید مبارک شاہ