وہ جو کرتے تھے بات بات کا غم
ان کو راس آ گیا حیات کا غم
اے شب ہجر میرے سینے پر
تو نے رکھا ہے کائنات کا غم
تو بھی سورج ہے اپنی ہستی کا
تجھ کو معلوم کیا ہو رات کا غم
چل غم دل غم جہان لئے
بھول جائیں تعلقات کا غم
آج فرصت ملی تھی باہر سے
کھا گیا اندرون ذات کا غم
وہ پیمبر ہیں اپنی راتوں کے
جن پہ اترا ہے چاند رات کا غم

غزل
وہ جو کرتے تھے بات بات کا غم
قمر عباس قمر