EN हिंदी
وہ جو کرتے تھے بات بات کا غم | شیح شیری
wo jo karte the baat baat ka gham

غزل

وہ جو کرتے تھے بات بات کا غم

قمر عباس قمر

;

وہ جو کرتے تھے بات بات کا غم
ان کو راس آ گیا حیات کا غم

اے شب ہجر میرے سینے پر
تو نے رکھا ہے کائنات کا غم

تو بھی سورج ہے اپنی ہستی کا
تجھ کو معلوم کیا ہو رات کا غم

چل غم دل غم جہان لئے
بھول جائیں تعلقات کا غم

آج فرصت ملی تھی باہر سے
کھا گیا اندرون ذات کا غم

وہ پیمبر ہیں اپنی راتوں کے
جن پہ اترا ہے چاند رات کا غم