وہ جو اک عمر سے مصروف عبادات میں تھے
آنکھ کھولی تو ابھی عرصۂ ظلمات میں تھے
صرف آفات نہ تھیں ذات الٰہی کا ثبوت
پھول بھی دشت میں تھے حشر بھی جذبات میں تھے
نہ یہ تقدیر کا لکھا تھا نہ منشائے خدا
حادثے مجھ پہ جو گزرے مرے حالات میں تھے
میں نے کی حد نظر پار تو یہ راز کھلا
آسماں تھے تو فقط میرے خیالات میں تھے
میرے دل پر تو گریں آبلے بن کر بوندیں
کون سی یاد کے صحرا تھے جو برسات میں تھے
اس سبب سے بھی تو میں قابل نفرت ٹھہرا
جتنے جوہر تھے محبت کے مری ذات میں تھے
صرف شیطان ہی نہ تھا منکر تکریم ندیمؔ
عرش پر جتنے فرشتے تھے مری گھات میں تھے
غزل
وہ جو اک عمر سے مصروف عبادات میں تھے
احمد ندیم قاسمی