EN हिंदी
وہ جو اک شخص وہاں ہے وہ یہاں کیسے ہو | شیح شیری
wo jo ek shaKHs wahan hai wo yahan kaise ho

غزل

وہ جو اک شخص وہاں ہے وہ یہاں کیسے ہو

افضل خان

;

وہ جو اک شخص وہاں ہے وہ یہاں کیسے ہو
ہجر پر وصل کی حالت کا گماں کیسے ہو

بے نمو خواب میں پیوست جڑیں ہیں میری
ایک گملے میں کوئی نخل جواں کیسے ہو

تم تو الفاظ کے نشتر سے بھی مر جاتے تھے
اب جو حالات ہیں اے اہل زباں کیسے ہو

آنکھ کے پہلے کنارے پہ کھڑا آخری اشک
رنج کے رحم و کرم پر ہے رواں کیسے ہو

بھاؤ تاؤ میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی
ہاں مگر تجھ سے خریدار کو ناں کیسے ہو

ملتے رہتے ہیں مجھے آج بھی غالبؔ کے خطوط
وہی انداز تخاطب کہ میاں کیسے ہو