وہ جو ایک چہرہ دمک رہا ہے جمال سے
اسے مل رہی ہے خوشی کسی کے خیال سے
میں نے صرف ایک ہی دائرے میں سفر کیا
کبھی بے نیاز بھی کر مجھے مہ و سال سے
کبھی ہنس کے خود ہی گلے سے اس کو لگا لیا
کبھی رو دیے ہیں لپٹ کے خود ہی ملال سے
تجھے کیا خبر کہ وہ کون ہے سر رہ گزر
کبھی سرسری نہ گزر کسی کے سوال سے
وہ جو مسکرا کے گزر رہا ہے قریب سے
اسے آشنائی ضرور ہے میرے حال سے
مجھے آسرا بھی نہیں کسی کی دعاؤں کا
مجھے خوف آتا ہے یوں بھی وقت زوال سے
یشبؔ اپنے آپ سے مل کے کتنا بھلا لگا
مجھے فرصتیں ہی نہیں ملیں کئی سال سے

غزل
وہ جو ایک چہرہ دمک رہا ہے جمال سے
یشب تمنا