EN हिंदी
وہ جتنے دور ہیں اتنے ہی میرے پاس بھی ہیں | شیح شیری
wo jitne dur hain utne hi mere pas bhi hain

غزل

وہ جتنے دور ہیں اتنے ہی میرے پاس بھی ہیں

فیض الحسن

;

وہ جتنے دور ہیں اتنے ہی میرے پاس بھی ہیں
یہ اور بات ہے خوش ہیں مگر اداس بھی ہیں

یہ دیکھنا ہے ہمیں کس کا ذوق کیسا ہے
یہاں شراب بھی ہے زہر کے گلاس بھی ہیں

انہی پہ تہمت دیوانگی لگاتے ہو
جو اتفاق سے محفل میں روشناس بھی ہیں

جو روشنی کے لبادے کو اوڑھ کر آئے
شب سیاہ کے وہ ماتمی لباس بھی ہیں

تم اپنے شہر میں امن و اماں کی بات کرو
جہاں سکوں ہے وہاں لوگ بد حواس بھی ہیں

غزل کے ساز ہیں فیض الحسن خیالؔ جہاں
وہاں پہ آہ بہ لب بھی ہیں محو یاس بھی ہیں