وہ جتنا مجھے آزماتا رہے گا
یقیں میرا اتنا گنواتا رہے گا
کبھی پوچھ لے تو رضا اس کے من کی
کہاں تک تو اپنی چلاتا رہے گا
یہ حیوانیت جرم کرتی رہے گی
شرافت پہ الزام آتا رہے گا
زمانہ ہے بہرا بچے کیسے عزت
کوئی شور کب تک مچاتا رہے گا
زمانہ ہوا خود میں چالاک اتنا
تو جب تک ڈرے گا ڈراتا رہے گا
رہے گی محبت جواں میرے دل میں
ترا درد جب تک ستاتا رہے گا
غموں کو بھی ہنس کر وہ جی لے گا کلکلؔ
خدا کو جو برتر بتاتا رہے گا

غزل
وہ جتنا مجھے آزماتا رہے گا
راجندر کلکل