وہ جسے دیدہ وری کہتے ہیں
ہم اسے بے بصری کہتے ہیں
نام اس کا ہے اگر با خبری
پھر کسے بے خبری کہتے ہیں
یہ اگر لطف و کرم ہے تو کسے
جور و بے دادگری کہتے ہیں
کیا اسی کار نظر بندی کو
حسن کی جلوہ گری کہتے ہیں
گل کے اوراق پہ کانٹوں کا گماں
کیا اسے خوش نظری کہتے ہیں
بہر بیمار دوا ہے نہ دعا
کیا اسے چارہ گری کہتے ہیں
کم کسی کو یہ خبر ہے کہ کسے
رنج بے بال و پری کہتے ہیں
یاس و حرماں کو بہ الفاظ دگر
آہ کی بے اثری کہتے ہیں
نام ہے وہ بھی جگر داری کا
ہم جسے بے جگری کہتے ہیں
آپ خود بھی تو گل انداموں کو
حور کہتے ہیں پری کہتے ہیں
فصل گل ہی تو ہے وہ ہم جس کو
موسم جامہ دری کہتے ہیں
عشق میں عین ہنر مندی ہے
سب جسے بے ہنری کہتے ہیں
مفت کی درد سری کو ہم بھی
مفت کی درد سری کہتے ہیں
آپ سے ہم سے بنی ہے نہ بنے
آپ خشکی کو تری کہتے ہیں
کیا کوئی بات کبھی اہل جنوں
از رہ ناموری کہتے ہیں
ہم پہ یہ بھی ہے اک الزام کہ ہم
داستاں درد بھری کہتے ہیں
کوئی خوش ہو کہ خفا ہو حیرتؔ
ہم تو ہر بات کھری کہتے ہیں
غزل
وہ جسے دیدہ وری کہتے ہیں
عبدالمجید حیرت