وہ جس پہ تمہیں شمع سر رہ کا گماں ہے
وہ شعلۂ آوارہ ہماری ہی زباں ہے
اب ہاتھ ہمارے ہے عناں رخش جنوں کی
اب سر پہ ہمارے کلہ سنگ بتاں ہے
بس پھیر کے منہ خار قدم کھینچ رہے تھے
دیکھا تو نہاں قافلۂ ہم سفراں ہے
چبھتے ہی بنی خار صفت پائے خزاں میں
کیا کیجے بہت ہم کو غم لالہ رخاں ہے
کام آئے بہت لوگ سر مقتل ظلمات
اے روشنیٔ کوچۂ دلدار کہاں ہے
اے فصل جنوں ہم کو پئے شغل گریباں
پیوند ہی کافی ہے اگر جامہ گراں ہے
مجروحؔ کہاں سے گہر گندم و جو لائیں
اپنی تو گرہ میں یہی چشم نگراں ہے

غزل
وہ جس پہ تمہیں شمع سر رہ کا گماں ہے
مجروح سلطانپوری