وہ جس کی سارا جہاں پختگی سے ہار گیا
وہ ایک کوہ گراں آدمی سے ہار گیا
وہی جو رات پہ چھایا ہوا اندھیرا تھا
سحر ہوئی ہے تو وہ روشنی سے ہار گیا
نہیں ہے کوئی سبب سب سے اس کے کٹنے کا
غریب آدمی تھا مفلسی سے ہار گیا
ہر اک محاذ پہ دشمن کو جس سے مات ہوئی
وہ اپنے دوستوں کی دوستی سے ہار گیا
بہت عزیز تھی اس کو بھی اپنی جان مگر
حصار جبر میں وہ بے بسی سے ہار گیا
دراصل اس کے مقدر میں ہار لکھی تھی
وہ اس سے جنگ میں بد قسمتی سے ہار گیا
ہمیشہ یہ ہی تو ہوتا رہا ہے میرے عزیز
کسی کی جیت تو کوئی کسی سے ہار گیا
نہیں تھا اس کے برابر کا اہل زر بھی کوئی
مگر غریب کی دریا دلی سے ہار گیا
یہ کیا مقام ہے انساں کی زندگی میں نظیرؔ
نبھائی موت سے اور زندگی سے ہار گیا
غزل
وہ جس کی سارا جہاں پختگی سے ہار گیا
نذیر میرٹھی