وہ جس کا رنگ سلونا ہے بادلوں کی طرح
گرا تھا میری نگاہوں پہ بجلیوں کی طرح
وہ روبرو ہو تو شاید نگاہ بھی نہ اٹھے
جو میری آنکھ میں رہتا ہے رتجگوں کی طرح
چراغ ماہ کے بجھنے پہ یہ ہوا محسوس
نکھر گئی مری شب تیرے گیسوؤں کی طرح
وہ آندھیاں ہیں کہ دل پر تمہاری یادوں کے
نشاں بھی مٹ گئے صحرا کے راستوں کی طرح
مری نگاہ کا انداز اور ہے ورنہ
تمہاری بزم میں ہوں میں بھی دوسروں کی طرح
قریب آئے تو گم کردہ رہ دکھائی دیئے
جو دور سے نظر آتے تھے منزلوں کی طرح
ہر اک نظر کی رسائی نہیں کہ دیکھ سکے
ہجوم رنگ ہے خاروں میں بھی گلوں کی طرح
نہ جانے کیسے سفر کی ہے آرزو دل میں
میں اپنے گھر میں پڑا ہوں مسافروں کی طرح
میں دشت درد ہوں یادوں کی نکہتوں کا امیں
ہوا تھمے تو مہکتا ہوں گلشنوں کی طرح
دمک رہا ہے جبین دوام پر فرہاد
شرار تیشہ فروزاں ہے مشعلوں کی طرح
اسی کی دھن میں چٹانوں سے سر کو ٹکرایا
وہ اک خیال کہ نازک تھا آئنوں کی طرح

غزل
وہ جس کا رنگ سلونا ہے بادلوں کی طرح
صادق نسیم