وہ جس کا عکس لہو کو جگا دیا کرتا
میں خواب خواب میں اس کو صدا دیا کرتا
قریب آتی جو تاریخ اس کے ملنے کی
وہ اپنے وعدے کی مدت بڑھا دیا کرتا
میں زندگی کے سفر میں تھا مشغلہ اس کا
وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے مجھ کو گنوا دیا کرتا
اسے سمیٹتا میں جب بھی ایک نقطے میں
وہ میرے دھیان میں تتلی اڑا دیا کرتا
اسی کے گاؤں کی راہوں میں بیٹھ کر ہر روز
میں دل کا حال ہوا کو سنا دیا کرتا
مجھے وہ آنکھ میں رکھ کر شمارؔ پچھلی شب
عجب خمار میں پلکیں گرا دیا کرتا
نہ چھیڑ مجھ کو زمانہ وہ اور تھا جس میں
فقیر گالی کے بدلے دعا دیا کرتا
غزل
وہ جس کا عکس لہو کو جگا دیا کرتا
اختر شمار