EN हिंदी
وہ جدھر بھی نظر اٹھاوے ہے | شیح شیری
wo jidhar bhi nazar uThawe hai

غزل

وہ جدھر بھی نظر اٹھاوے ہے

ندرت نواز

;

وہ جدھر بھی نظر اٹھاوے ہے
زندگی کا پتہ بتاوے ہے

دور تک کوئی بھی نہیں اب تو
کون یہ شور سا مچاوے ہے

اس سڑک پر وہ گھر نہیں ملتا
جو سڑک اس کے گھر کو جاوے ہے

کوئی تو بات ہے جو میں چپ ہوں
ورنہ یوں کون دل جلاوے ہے

میں تو اس کا پتہ ہوں لیکن وہ
مجھ سے اپنا پتہ چھپاوے ہے

اس سے کٹتا نہیں درخت کوئی
نرم شاخوں کو وہ جھکاوے ہے

سہما رہتا ہوں گھر کے اندر بھی
جانے کیا شے مجھے ڈراوے ہے

آؤ ندرت نوازؔ لوٹ چلو
وہ کہاں اپنے لب ہلاوے ہے