وہ جب تک انجمن میں جلوہ فرمانے نہیں آتے
صراحی رقص میں گردش میں پیمانے نہیں آتے
شریک درد بن کر اپنے بیگانے نہیں آتے
مئے عشرت جو پیتے ہیں وہ غم کھانے نہیں آتے
لپٹ کر شمع کی لو سے لگی دل کی بجھاتے ہیں
پرائی آگ میں جلنے کو پروانے نہیں آتے
اڑاتے ہی پھریں گے عمر بھر وہ خاک صحرا کی
تری زلفوں کے سائے میں جو دیوانے نہیں آتے
جو اپنی آن پر اے نازؔ اپنی جان دیتے تھے
زمانے میں نظر اب ایسے دیوانے نہیں آتے

غزل
وہ جب تک انجمن میں جلوہ فرمانے نہیں آتے
شیر سنگھ ناز دہلوی