وہ اس ادا سے جو آئے تو کیوں بھلا نہ لگے
ہزار بار ملو پھر بھی آشنا نہ لگے
کبھی وہ خاص عنایت کہ سو گماں گزریں
کبھی وہ طرز تغافل کہ محرمانہ لگے
وہ سیدھی سادی ادائیں کہ بجلیاں برسیں
وہ دلبرانہ مروت کہ عاشقانہ لگے
دکھاؤں داغ محبت جو ناگوار نہ ہو
سناؤں قصۂ فرقت اگر برا نہ لگے
بہت ہی سادہ ہے تو اور زمانہ ہے عیار
خدا کرے کہ تجھے شہر کی ہوا نہ لگے
بجھا نہ دیں یہ مسلسل اداسیاں دل کو
وہ بات کر کہ طبیعت کو تازیانہ لگے
جو گھر اجڑ گئے ان کا نہ رنج کر پیارے
وہ چارہ کر کہ یہ گلشن اجاڑ سا نہ لگے
عتاب اہل جہاں سب بھلا دیے لیکن
وہ زخم یاد ہیں اب تک جو غائبانہ لگے
وہ رنگ دل کو دیے ہیں لہو کی گردش نے
نظر اٹھاؤں تو دنیا نگار خانہ لگے
عجیب خواب دکھاتے ہیں نا خدا ہم کو
غرض یہ ہے کہ سفینہ کنارے جا نہ لگے
لیے ہی جاتی ہے ہر دم کوئی صدا ناصرؔ
یہ اور بات سراغ نشان پا نہ لگے
غزل
وہ اس ادا سے جو آئے تو کیوں بھلا نہ لگے
ناصر کاظمی