وہ اک چٹان جو پانی ہوئی سلیقے سے
ندی کچھ اور سیانی ہوئی سلیقے سے
نگہ کی دھار میں خنجر کا ذائقہ اترا
دلوں کی بات زبانی ہوئی سلیقے سے
اسے بھی کھا گئی تہذیب دیمکوں کی طرح
نئی کتاب پرانی ہوئی سلیقے سے
وہ ایک رات جو پہلو میں مطمئن تھی بہت
قیامتوں کی نشانی ہوئی سلیقے سے
اٹھے جو شہر سے صحرا پہ وہ برس بھی گئے
غموں کی نقل مکانی ہوئی سلیقے سے
مرے لہو سے ہیں گل رنگ حسرتیں اس کی
سزا کی شام سہانی ہوئی سلیقے سے
کسی کا قرب کبوتر کے پنکھ جیسا تھا
بدن کی آگ بھی پانی ہوئی سلیقے سے
غزل
وہ اک چٹان جو پانی ہوئی سلیقے سے
خورشید اکبر

