وہ حسن کو جلوہ گر کریں گے
آرائش بام و در کریں گے
ہر گوشے میں ہوگی خود نمائی
ہر ذرے کو رہ گزر کریں گے
ہنس ہنس کے کریں گے چارہ سازی
سامان دل و نظر کریں گے
ہم بھی سر راہ منتظر ہیں
دیکھیں کب ادھر نظر کریں گے
افسانۂ غم طویل ہے دوست
اس بات کو مختصر کریں گے
ہے شام فراق سخت تاریک
اس شام کی اب سحر کریں گے
افسردہ ہیں زندگی کے تیور
کب تک یوں ہی ہم بسر کریں گے
آئے گا تبسمؔ ان لبوں پر
آنسو بھی کبھی اثر کریں گے
غزل
وہ حسن کو جلوہ گر کریں گے
صوفی تبسم