وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد
سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد
ہر انقلاب مبارک ہر انقلاب عذاب
شکست جام سے پہلے شکست جام کے بعد
مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز
مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد
چراغ بزم ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ
جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد
یہ رات کچھ بھی نہیں تھی یہ رات سب کچھ ہے
طلوع جام سے پہلے طلوع جام کے بعد
وہی زباں وہی باتیں مگر ہے کتنا فرق
تمہارے نام سے پہلے تمہارے نام کے بعد
حیات گریۂ شبنم حیات رقص شرر
ترے پیام سے پہلے ترے پیام کے بعد
یہ طرز فکر یہ رنگ سخن کہاں قابلؔ
ترے کلام سے پہلے ترے کلام کے بعد
غزل
وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد
قابل اجمیری