EN हिंदी
وہ ہر ہر قدم پر سنبھلتے ہوئے | شیح شیری
wo har har qadam par sambhalte hue

غزل

وہ ہر ہر قدم پر سنبھلتے ہوئے

شیام سندر لال برق

;

وہ ہر ہر قدم پر سنبھلتے ہوئے
دلوں کو مسلتے ہیں چلتے ہوئے

نہ ارماں کو دیکھا نکلتے ہوئے
نہ نخل تمنا کو پھلتے ہوئے

وہ کس طرح قابو میں آئیں مرے
قیامت کے پتلے ہیں چلتے ہوئے

رہی ایک انداز پر چشم یار
زمانے کو دیکھا بدلتے ہوئے

وہ کچھ رنگ لائیں گے روز وصال
حنا ان کو دیکھا ہے ملتے ہوئے

دم نزع یا رب میں دیکھوں انہیں
وہ دیکھیں مرا دم نکلتے ہوئے

انہیں غیر سے جب نہ فرصت ملی
چلے آئے ہم ہاتھ ملتے ہوئے

میں جانوں کہ نالے میں ہے کچھ اثر
جو دل ان کا دیکھوں پگھلتے ہوئے

وہ نکلے ادھر سے تو اے برقؔ یوں
مرا دل کف پا سے ملتے ہوئے