EN हिंदी
وہ حقیقت میں ایک لمحہ تھا | شیح شیری
wo haqiqat mein ek lamha tha

غزل

وہ حقیقت میں ایک لمحہ تھا

صغیر ملال

;

وہ حقیقت میں ایک لمحہ تھا
جس کا دوران یہ زمانہ تھا

میری نظروں سے گر پڑی ہے زمیں
کیوں بلندی نے اس کو دیکھا تھا

کیسی پیوند کار ہے فطرت
منتشر ہو کے بھی میں یکجا تھا

روشنی ہے کسی کے ہونے سے
ورنہ بنیاد تو اندھیرا تھا

جب بھی دیکھا نیا لگا مجھ کو
کیا تماشا جہان کہنہ تھا

اس نے محدود کر دیا ہم کو
کوئی ہم سے یہاں زیادہ تھا

جب کہ سورج تھا پالنے والا
چاند سے کیا لہو کا رشتہ تھا

مر گیا جو بھی اس کے بارے میں
دھیان پڑتا نہیں کہ زندہ تھا

یہیں پیدا یہیں جوان ہوا
اس کے لب پر کہاں کا قصہ تھا

کوئی گنجان تھا کوئی ویران
کوئی جنگل کسی میں صحرا تھا

عمر ساری وہ نیند میں بولا
چند لمحوں کو کوئی جاگا تھا

کہیں جانے کی سب نے باتیں کیں
کیسے آتے ہیں کون بولا تھا

ساری الجھن اسی سے پیدا ہوئی
وہ جو واحد ہے بے تحاشا تھا

دوڑتے پھر رہے تھے سارے لوگ
جب کہ ان کو یہیں پہ رہنا تھا

تجھ کو لانا حصار میں اپنے
میرا ادنیٰ سا اک کرشمہ تھا

فرق گہرائی اور پستی میں
کسی بلندی سے دیکھ پایا تھا

اس کی تفصیل میں تھا سرگرداں
ذہن میں مختصر سا خاکہ تھا

پاس آ کر اسے ہوا معلوم
میں اکیلا نہیں تھا تنہا تھا

کتنے فیصد تھے جاگنے والے
کتنے لوگوں کو ہوش آیا تھا

کس کو ابن السبیل کہتے ملالؔ
نئے رستوں کا کون بیٹا تھا