وہ ہمیں راہ میں مل جائیں ضروری تو نہیں
خودبخود فاصلے مٹ جائیں ضروری تو نہیں
چاند چہرے کہ ہیں گم وقت کے سناٹے میں
ہم مگر ان کو بھلا پائیں ضروری تو نہیں
جن سے بچھڑے تھے تو تاریک تھی دنیا ساری
ہم انہیں ڈھونڈ کے پھر لائیں ضروری تو نہیں
تشنگی حد سے سوا اور سفر جاری ہے
پر سرابوں سے بہل جائیں ضروری تو نہیں
زندگی تو نے تو سچ ہے کہ وفا ہم سے نہ کی
ہم مگر خود تجھے ٹھکرائیں ضروری تو نہیں
جوئے احساس میں لرزاں یہ گریزاں لمحات
نغمۂ درد میں ڈھل جائیں ضروری تو نہیں
یہ تو سچ ہے کہ ہے اک عمر سے بس ایک تلاش
ہم مگر اپنا پتا پائیں ضروری تو نہیں
غزل
وہ ہمیں راہ میں مل جائیں ضروری تو نہیں
زاہدہ زیدی