وہ ہم سے کیوں الگ تھا کیوں دکھی تھا
ہمارے ذہن میں جو آدمی تھا
پتا دیتیں مرا کیا شاہراہیں
مکاں میرا گلی اندر گلی تھا
ہزاروں میں چھپے تھے مجھ میں پھر بھی
نظر میں آئنہ کے ایک ہی تھا
ہرے پتوں سے شبنم کی جدائی
یہی آغاز صبح تشنگی تھا
غرور صبح کیا مجھ کو دکھاتا
لہو کی شام میں میں دیدنی تھا
اندھیرے جھاڑ کر دامن سے اپنے
اٹھا تو روشنی ہی روشنی تھا
غزل
وہ ہم سے کیوں الگ تھا کیوں دکھی تھا
تصور زیدی