وہ حد سے دور ہوتے جا رہے ہیں
بڑے مغرور ہوتے جا رہے ہیں
بسے ہیں جب سے وہ میری نظر میں
سراپا نور ہوتے جا رہے ہیں
جو پھوٹے آبلے دل کی خلش سے
وہ اب ناسور ہوتے جا رہے ہیں
بہت مشکل ہے منزل تک رسائی
وہ کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں
کہاں پہلی سی راہ و رسم الفت
نئے دستور ہوتے جا رہے ہیں
ہمارے داغ دل راہ طلب میں
چراغ طور ہوتے جا رہے ہیں
خدا حافظ ہے اب بادہ کشوں کا
نشے میں چور ہوتے جا رہے ہیں
پلا دے ساقیا بادہ کشوں کو
نشے کافور ہوتے جا رہے ہیں
قریب دل وہ کیا اے نازؔ آئے
نظر سے دور ہوتے جا رہے ہیں

غزل
وہ حد سے دور ہوتے جا رہے ہیں
شیر سنگھ ناز دہلوی