وہ حاضر ہو کہ غائب ہو نہاں یوں بھی ہے اور یوں بھی
سراسر راز راز کن فکاں یوں بھی ہے اور یوں بھی
تحیر ہے حضوری میں تو بیتابی ہے دوری میں
مصیبت میں یہ جان ناتواں یوں بھی ہے اور یوں بھی
تمنا کی طرح ترک تمنا بھی مصیبت ہے
یہ دنیا اک مقام امتحاں یوں بھی ہے اور یوں بھی
وہ آ کر بھی رلاتے ہیں وہ جا کر بھی رلاتے ہیں
دل ناکام مشغول فغاں یوں بھی ہے اور یوں بھی
اٹھایا ناز رہبر بھی جنوں بھی آزما دیکھا
مگر برہم نظام کارواں یوں بھی ہے اور یوں بھی
جو دل میں داغ روشن ہیں تو اشک خوں ہے آنکھوں میں
یہ منظر گلستاں در گلستاں یوں بھی ہے اور یوں بھی
رہی جو برق سے محفوظ پامال خزاں ہوگی
غم انجام شاخ آشیاں یوں بھی ہے اور یوں بھی
فقط کہنے کو تو ہے کامیابی اور ناکامی
محبت فاتح کون و مکاں یوں بھی ہے اور یوں بھی
ستم ہو یا کرم دونوں کا ہم پر شکر واجب ہے
جو اپنا مہرباں ہے مہرباں یوں بھی ہے اور یوں بھی
جو سن سکتے ہو تم سن لو نہیں طاقت تو ہم چپ ہیں
ہمیں منظور اپنا امتحاں یوں بھی ہے اور یوں بھی
امید سلسلہ در سلسلہ لطف و دوام اس میں
بہار عمر فانی جاوداں یوں بھی ہے اور یوں بھی
گھٹا ساون کی اور اے عرشؔ الہامات کی بارش
زمیں پر آج فیض آسماں یوں بھی ہے اور یوں بھی
غزل
وہ حاضر ہو کہ غائب ہو نہاں یوں بھی ہے اور یوں بھی
عرش ملسیانی