EN हिंदी
وہ حال ہے کہ تلاش نجات کی جائے | شیح شیری
wo haal hai ki talash-e-najat ki jae

غزل

وہ حال ہے کہ تلاش نجات کی جائے

محشر بدایونی

;

وہ حال ہے کہ تلاش نجات کی جائے
کسی فقیر دعا گو سے بات کی جائے

یہ شہر کیسا خوش اوقات تھا اور اب کیا ہے
جو دن بھی نکلے تو وحشت نہ رات کی جائے

کوئی تو شکل گماں ہو کوئی تو حیلۂ خیر
کسی طرح تو بسر اب حیات کی جائے

گھروں میں وقت گزاری کا اب ہے شغل ہی کیا
یہی کہ گفتگوئے حادثات کی جائے

اگر یہی ہے اب ایفائے عہد میں پس و پیش
تو ختم رسم و رہ التفات کی جائے

حصول فتح غرض ہو تو کیا بجا ہے یہ طور
تباہ اس کے لئے کائنات کی جائے

محال ہی میں کچھ آسودگی بحال کریں
کہاں تک آرزوئے ممکنات کی جائے

کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
ملائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہات کی جائے