وہ گم ہوئے ہیں مسافر رہ تمنا میں
کہ گرد بھی نہیں اب آرزو کے صحرا میں
ہے کون جلوہ سرا بام آفرینش پر
اتر گئے ہیں ستارے سے چشم بینا میں
ملی تھی جس کو نمو درد کی صلیبوں سے
وہ لمس بھی نہیں باقی مرے مسیحا میں
کشید جن سے ہوئی تھی نئے زمانوں کی
وہ میکدے بھی ہوئے غرق موج صہبا میں
اٹھا لیا تھا جنہیں غم نے شہر ماتم سے
وہ حرف لکھے گئے ہیں خط شکیبا میں
دیا شعور اجالوں کا صبح مریم کو
چراغ کس نے جلایا شب کلیسا میں
اٹھا ہے اب کے وہ طوفاں جوار ساحل سے
کہ موج بھی نہیں محفوظ قعر دریا میں
جو لے گئیں مرے یوسف کو باب زنداں تک
وہ چاہتیں بھی نہیں دامن زلیخا میں
وہ زخم جن سے ملا درد آشنائی کا
نہیں ہیں وہ بھی صمدؔ اب مرے سراپا میں

غزل
وہ گم ہوئے ہیں مسافر رہ تمنا میں
صمد انصاری