وہ گل ہیں نہ ان کی وہ ہنسی ہے
دیکھو جدھر اس سی پڑی ہے
کیوں سوگ کی رسم جیتے جی ہے
مرنے کی ہمارے کیا کہی ہے
آڑی ہیکل کو چوم لے گی
وہ چیز جو کچھ اٹھی اٹھی ہے
دعوت تھی رقیب کی مرے گھر
جوتی میں دال کیا بٹی ہے
آیا دبے پاؤں قبر پر کون
کوئی نہیں میری بیکسی ہے
ایک وضع پر اب خدا نباہے
توبہ کر کے شراب پی ہے
واعظ ہے خراب خواہش خلد
بالکل یہ شخص جنتی ہے
کچھ پھوٹ پڑی ہے گھنگھرؤں میں
چھاگل کچھ ان کی کہہ رہی ہے
مجبور فرشتہ ہے بدی کا
پہلے ہی سے کچھ کہی بدی ہے
پیوستہ نہیں مرا لب شوق
تیرے لب پر تری ہنسی ہے
اب کون کلیم بن کے آیا
پھر طور پر آگ سی لگی ہے
ہے آنکھ میں آنکھ کون ڈالے
کوئی نہیں تیری آرسی ہے
کیسا پینا کہاں کی توبہ
اب میں ہوں خدا ہے بے خودی ہے
خوش ہو گے ریاضؔ سے بھی ملنا
کیا باغ و بہار آدمی ہے
غزل
وہ گل ہیں نہ ان کی وہ ہنسی ہے
ریاضؔ خیرآبادی