وہ گل بدن ہے سراپا گلاب جیسا ہے
جہان حسن میں وہ آفتاب جیسا ہے
ہزاروں رنگ سمیٹے ہوئے ہے آنکھوں میں
وہ شاعری کی مکمل کتاب جیسا ہے
سنوار دیتا ہے وہ ساری مشکلیں میری
ہر اک سوال ہی اس کا جواب جیسا ہے
وہ رو بہ رو ہو تو بس دیکھتے رہو اس کو
کہ اس کو دیکھنا کار ثواب جیسا ہے
زمانہ کچھ نہیں سمجھے گا بس پئے جاؤ
کہ زہر غم کا نشہ بھی شراب جیسا ہے
کسی مقام پے ٹھہرا ہے اور نہ ٹھہرے گا
کہ دل کا حال بھی خانہ خراب جیسا ہے
ہر ایک لفظ ہے ساگرؔ کا قیمتی موتی
وہ رکھ رکھاؤ میں اب بھی نواب جیسا ہے

غزل
وہ گل بدن ہے سراپا گلاب جیسا ہے
روپ ساگر