وہ غم گسار بالآخر بلائے جاں نکلا
جسے زمین سمجھتے تھے آسماں نکلا
عظیم تر ہے محبت میں روح کا رشتہ
مگر بدن کا تعلق بھی درمیاں نکلا
سراغ قتل شہادت ثبوت سب گونگے
لہو خموش تھا خنجر بھی بے زباں نکلا
تمام راستے ماضی کے بند تھے پھر بھی
ہر ایک موڑ سے یادوں کا کارواں نکلا
سنی جو میری کہانی تو رو پڑے سب لوگ
سبھوں کے درد میں اک رشتہ نہاں نکلا
ہم اپنے غم کا فسانہ کہا کیے شب بھر
ہوئی جو صبح تو ذکر غم جہاں نکلا
شہابؔ جس کی خطابت کا شور ہے یارو
غزل کی بزم میں کم صوت و کم بیاں نکلا
غزل
وہ غم گسار بالآخر بلائے جاں نکلا
منظر شہاب