وہ ایک طرح سے اقرار کرنے آیا تھا
جو اتنی دور سے انکار کرنے آیا تھا
خوشی جو خواب میں بھی میری دسترس سے تھی دور
مجھے اسی کا سزاوار کرنے آیا تھا
یہ صاف لگتا ہے جیسی کہ اس کی آنکھیں تھیں
وہ اصل میں مجھے بیمار کرنے آیا تھا
اگر تھا اس کو مری حیثیت کا اندازہ
تو کیوں وہ اپنا خریدار کرنے آیا تھا
یہ زندگی کہ جو آساں نہیں تھی پہلے بھی
اسے کچھ اور بھی دشوار کرنے آیا تھا
اگرچہ ایک ہی سست الوجود تھا لیکن
وہ کام کوئی لگاتار کرنے آیا تھا
مرے تو بس میں کوئی چیز تھی نہ پہلے بھی
وہ مجھ کو اور بھی لاچار کرنے آیا تھا
وہ ایک ابر گراں بار تھا مگر اس دن
ذرا فضا کو ہوا دار کرنے آیا تھا
عداوتوں میں وہاں دھر لیا گیا ہوں ظفرؔ
جہاں کے لوگوں سے میں پیار کرنے آیا تھا
غزل
وہ ایک طرح سے اقرار کرنے آیا تھا
ظفر اقبال