EN हिंदी
وہ ایک شخص مرے پاس جو رہا بھی نہیں | شیح شیری
wo ek shaKHs mere pas jo raha bhi nahin

غزل

وہ ایک شخص مرے پاس جو رہا بھی نہیں

شمیم عباس

;

وہ ایک شخص مرے پاس جو رہا بھی نہیں
وہ خود کو دور کبھی مجھ سے کر سکا بھی نہیں

نگاہ جس کی مری سمت آج تک نہ اٹھی
مرے سوا وہ کسی شے کو دیکھتا بھی نہیں

مرے خطوط تو جھلا کے پھاڑ دیتا ہے
عجیب بات ہے پرزوں کو پھینکتا بھی نہیں

تمام وقت ہے وہ محو گفتگو مجھ سے
یہ کان جس کی صداؤں سے آشنا بھی نہیں

ہمارے سینے میں چھپ جائے ڈر کے دنیا سے
وہ جس کے لمس نے اب تک ہمیں چھوا بھی نہیں

جدھر بھی دیکھوں وہی وہ دکھائی دیتا ہے
مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ خدا بھی نہیں