EN हिंदी
وہ ایک نظر میں مجھے پہچان گیا ہے | شیح شیری
wo ek nazar mein mujhe pahchan gaya hai

غزل

وہ ایک نظر میں مجھے پہچان گیا ہے

نور جہاں ثروت

;

وہ ایک نظر میں مجھے پہچان گیا ہے
جو بیتی ہے دل پر مرے سب جان گیا ہے

رہنے لگا دل اس کے تصور سے گریزاں
وحشی ہے مگر میرا کہا مان گیا ہے

تھا ساتھ نبھانے کا یقیں اس کی نظر میں
محفل سے مری اٹھ کے جو انجان گیا ہے

اوروں پر اثر کیا ہوا اس ہوش ربا کا
بس اتنی خبر ہے مرا ایمان گیا ہے

چہرے پہ مرے درد کی پرچھائیں جو دیکھی
بے درد مرے گھر سے پریشان گیا ہے

اس بھیڑ میں ثروتؔ نظر آنے لگی تنہا
کس کوچے میں تیرا دل نادان گیا ہے