وہ دشمن ہو گیا اچھا ہوا ہے
یہ لمحہ دل پہ اب لکھا ہوا ہے
مگر سچ ہے کہ وہ بہکا ہوا ہے
مگر اے دل وہ کیوں بہکا ہوا ہے
بلائیں لے رہے تھے لوگ سارے
مگر بچہ ہے پھر سہما ہوا ہے
برا لگتا نہیں اب کوئی کچھ بھی
کہ ہم نے سب ہی کچھ دیکھا ہوا ہے
کھڑی ہوں دھوپ میں سورج سنبھالے
مرا سایہ بڑا پھیلا ہوا ہے
مری آنکھوں پہ تم اب ہاتھ رکھنا
مرے آگے کوئی ٹھہرا ہوا ہے
وہ یاد آیا تو دیکھا میں نے یہ بھی
اندھیرا چار سو پھیلا ہوا ہے
مری آنکھوں میں لگتا ہے کہ اب تک
وہی آنسو وہیں ٹھہرا ہوا ہے
مقدر میرے ہاتھوں میں ہے کوثرؔ
مرے ہاتھوں پہ یہ لکھا ہوا ہے
غزل
وہ دشمن ہو گیا اچھا ہوا ہے
سیدہ کوثر منور شرقپوری