EN हिंदी
وہ دل میں رہتے ہیں دل کا نشاں نہیں معلوم | شیح شیری
wo dil mein rahte hain dil ka nishan nahin malum

غزل

وہ دل میں رہتے ہیں دل کا نشاں نہیں معلوم

شکیل بدایونی

;

وہ دل میں رہتے ہیں دل کا نشاں نہیں معلوم
مکین ڈھونڈ رہا ہوں مکاں نہیں معلوم

سکون پانے لگا ہوں غم محبت میں
کہاں گئیں مری بے تابیاں نہیں معلوم

مسرتوں کا تو سطحی مطالعہ ہے مگر
غم حیات کی گہرائیاں نہیں معلوم

فغاں نصیب کی وارفتگی ارے توبہ
فغاں نصیب کو وجۂ فغاں نہیں معلوم

چمن کی فکر بھی کر آشیاں کی فکر کے ساتھ
کدھر کو ٹوٹ پڑیں بجلیاں نہیں معلوم

وفا شعار تہی دست آئے منزل پر
کہاں کہاں پہ لٹا کارواں نہیں معلوم

شکیلؔ آئنہ ہے دور انقلاب مگر
مآل قسمت ہندوستاں نہیں معلوم