EN हिंदी
وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا | شیح شیری
wo dekhne hamein Tuk bimari mein na aaya

غزل

وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا

میر تقی میر

;

وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا
سو بار آنکھیں کھولیں بالیں سے سر اٹھایا

گلشن کے طائروں نے کیا بے مروتی کی
یک برگ گل قفس میں ہم تک نہ کوئی لایا

بے ہیچ اس کا غصہ یارو بلائے جاں ہے
ہرگز منا نہ ہم سے بہتیرا ہی منایا

قد بلند اگرچہ بے لطف بھی نہیں ہے
سرو چمن میں لیکن اندازہ وہ نہ پایا

نقشہ عجب ہے اس کا نقاش نے ازل کے
مطبوع ایسا چہرہ کوئی نہ پھر بنایا

شب کو نشے میں باہم تھی گفتگوئے درہم
اس مست نے جھنکایا یعنی بہت جھکایا

دل بستگی میں کھلنا اس کا نہ اس سے دیکھا
بخت نگوں کو ہم نے سو بار آزمایا

عاشق جہاں ہوا ہے بے ڈھنگیاں ہی کی ہیں
اس میرؔ بے خرد نے کب ڈھب سے دل لگایا