EN हिंदी
وہ دور نشاط دیدہ و دل جیسے بس ابھی گزرا ہی تو ہے | شیح شیری
wo daur-e-nashat-o-dida-o-dil jaise bas abhi guzra hi to hai

غزل

وہ دور نشاط دیدہ و دل جیسے بس ابھی گزرا ہی تو ہے

مخمور سعیدی

;

وہ دور نشاط دیدہ و دل جیسے بس ابھی گزرا ہی تو ہے
سینے کی کسک کس طرح مٹے ہر داغ کہن تازہ ہی تو ہے

تو ساتھ کہاں لیکن اب تک ہر رہ گزر تنہائی پر
جو آگے آگے چلتا ہے اے دوست کوئی تجھ سا ہی تو ہے

اس طائر آوارہ کے لیے یوں جال نہ بن امیدوں کے
اڑتا ہوا لمحہ جیسے ابھی روکے سے ترے رکتا ہی تو ہے

معلوم نہیں کس وقت یہ کیا برتاؤ کسی سے کرتی ہے
دنیا سے کوئی امید نہ رکھ مایوس نہ ہو دنیا ہی تو ہے

کرنیں نئے دن کے سورج کی پھیلیں گی تو گم ہو جائے گا
تاریک ہے جس سے دل کا افق گزری شب کا سایا ہی تو ہے

لمحوں کے ہجوم گریزاں میں اک لمحہ جسے اپنا کہئے
جاں دے کے بھی ہاتھ آ جائے اگر مہنگا کب ہے سستا ہی تو ہے

مخمورؔ تعاقب کر دیکھو کچھ دور نہیں ہاتھ آ جائے
اک گم شدہ خوشبو کا جھونکا آنگن سے ابھی گزرا ہی تو ہے